Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
18 Jumada Al-Awwal 1446  

نزلہ یا کورونا وائرس؟ پہچاننا بہت آسان

اپ ڈیٹ 01 اپريل 2020 07:47am

اگر آپ کی ناک بہہ رہی ہے یا آنکھوں میں خارش ہورہی ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کورونا وائرس کا شکر ہیں۔

تاہم اگر آپ کو خشک کھانسی، تھکاوٹ اور بخار کا سامنا ہے، تو پھر ضرور کووڈ-19 کا شک کیا جاسکتا ہے۔

مگر ان تینوں میں ایک نمایاں فرق کورونا وائرس کی ایک علامت سانس لینے میں مشکل ہے، جو اس کی ایسی عام علامت ہے جو نمونیا سے قبل سامنے آتی ہے۔

عام طور پر فلو یا نزلہ زکام میں سانس لینے میں مشکل کا سامنا اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک نمونیا کا مرض نہ ہوجائے۔

ماہرین کے مطابق انفلوائنزا کووڈ-19 سے بہت ملتا جلتا مرض ہے مگر سانس لینے میں مشکل کا مسئلہ اس میں اتنا زیادہ نہیں ہوتا جتنا کووڈ-19 کے مریضوں کو ہوتا ہے۔

نئے کورونا وائرس کے شکار افراد میں عموماً سانس لینے میں مشکل کا سامنا مریض کو پہلی علامت بخار ہونے کے 5 سے 10 دن کے دوران ہوتا ہے۔

چھینکنا، ناک بہنا، چہرے میں تکلیف اور آنکھوں میں خارش سب الرجی یا عام نزلہ زکام کی علامات تو ہیں مگر کووڈ-19 میں یہ عام نہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کووڈ-19 کی سب سے عام علامات میں بخار، تھکاوٹ اور خشک کھانسی شامل ہیں، کچھ مریضوں کو شاید تکلیف، خارش، ناک بند ہونے، ناک بہنے، گلے میں سوجن یا ہیضہ کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔

کووڈ-19 کی علامات عموماً کسی مریض میں وائرس داخل ہونے کے 2 سے 14 دن کے دوران نظر آتی ہیں۔

مگر عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کچھ متاثرہ افراد میں کسی قسم کی علامات نظر نہیں آتیں اور ان کی طبیعت بھی خراب نہیں ہوتی، ایسے افراد وائرس کو اپنے ارگرد منتقل بھی کرسکتے ہیں۔

کووڈ-19 فلو یا عام نزلہ زکام کی طرح ایک ایسا مرض ہے جس میں لوگوں کو اپنی حالت اس وقت ٹھیک ہی لگتی ہے جب تک علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

اس کے مقابلے میں الرجیز عموماً دائمی ہوتی ہیں اور ان کی علامات ہفتوں، مہینوں یا برسوں تک نمودار اور غائب ہوسکتی ہیں، مگر الرجیز میں عموماً بخار یا جسمانی خارش کا سامنا نہیں ہوتا جبکہ کھانسی بھی اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک بلغم بہت زیادہ نہ بننے لگے۔

الرجیز کے نتیجے میں چھینکوں کا زیادہ سامنا ہوتا ہے خصوصاً دمہ کے شکار افراد کو، الرجی میں سانس لینے میں مشکل ضرور ہوتی ہے مگر اس میں ہیضہ، گلے میں سوجن کا سامنا بھی نہیں ہوتا۔

اسی طرح کووڈ-19، نزلہ یا فلو کی علامات میں بخار، سردرد اور جسمانی درد شامل ہیں جبکہ الرجیز میں عموماً سانس کی نالی ہی متاثر ہوتی ہے اور ان کی شدت کو اینٹی الرجی ادویات سے کم کیا جاسکتا ہے۔

کووڈ-19 فلو نہیں اور یہ وائرس فلو کے مقابلے میں عام نزلہ زکام کے وائرس کی طرح کام کرتا ہے۔

ویسے ماہرین کے خیال میں کووڈ-19 کی شدت معتدل ہو تو فلو یا عام نزلہ زکام کے لیے جو علاج کیا جاتا ہے، وہ کورونا وائرس کی علامات کو قابو میں رکھنے میں بھی مدد دے سکتا ہے۔

خوش قسمتی سے کووڈ-19 کے 80 فیصد کیسز کی شدت معتدل قرار دی جاتی ہے۔

ویسے بھی عام نزلہ زکام کس دنیا بھر میں اموات کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ سیزنل الرجیز خطرناک کی جگہ تکلیف دہ قرار دی جاتی ہیں۔

انفلوائنزا البتہ ایسا مرض ہے جس سے صرف امریکا میں ہر سال 12 سے 60 ہزار اموات ہوتی ہیں۔

کووڈ-19 اس سے زیادہ اموات کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ یہ بہت آسانی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور لوگوں میں اس کے حوالے سے فی الحال مدافعت بھی موجود نہیں۔

اگر آپ خود کو بیمار محسوس کررہے ہیں یا ایسا لگ رہا کہ کووڈ-19 ہے تو ازخود کم از کم 2 ہفتے کے لیے قرنطینہ اختیار کرکے اس کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے۔

درحقیقت اگر اس مرض کا شبہ ہو تو ہیلپ لائن 1166 پر کال کرکے علامات کے بارے میں بتائیں اور حکام طے کریں گے کہ ٹیسٹ کی ضرورت ہے یا نہیں۔

کووڈ-19 کی علامات جیسے سانس لینے میں مشکل، مسلسل درد یا سینے میں دباؤ کا سامنا ہو تو فوری طبی امداد کے لیے رجوع کرنا چاہیے۔